Add To collaction

30-Aug-2022 لیکھنی کی کہانی -

Novel name: یہ کیسا عشق ہے 


 Writer name: Syeda Ramsha Touqeer

Status: complete

Instagram: novelistic_ramsha

Facebook account : syeda ramsha touqeer

Gener : romantic , hate , social , kidnapping , love story 

Description:
یہ کہانی ہے ،ارسل ہمدانی اور ہانیہ شہروز کی ، 
انا ، محبت اور نفرت کی جنگ کی ،
کچھ وعدوں کے ٹوٹ جانے کی ، لوگوں کے بدل جانے کی 
زمانے سے خفا ہو جانے کی ، کانٹوں سے دل لگانے کی ، 
انتقام کے انوکھے انداز کی ، معصوم چہرے کے پیچھے چھپے ایک دغاباز کی ،
عشق کے اس مقام کی جہاں دل کسی اور کو چاہے تو گناہ لگتا ہے ۔

........................................................................................
  1Episode 

نظر جو مُجھ سے ملا کر گیا ہے ،
میرے ہوش وہ اُڑا کر گیا ہے ،
اُس کے سوا کچھ یاد نہیں ،
نقش ذہن سے مِٹا کر گیا ہے ،
آنکھیں سونے کا نام نہیں لیتیں ،
ان کی نیندیں چُرا کر گیا ہے ،
وہ میرے پاس ٹھہرا نہیں لیکن ،
مجھے اپنی جَھلک دکھا کر گیا ہے!!
" وہ بہت دیر سے اُس شخص کو وہاں کھڑا دیکھ رہی تھی جو شائستہ مزاج و اطوار کا پُرکشش نوجوان تھا ، جِسے تمام لڑکیاں بہت محویت سے تَک رہی تھی اور اُنکا موضوعِ گفتگو بھی وہی شخص تھا ۔"
تبھی سر میرب کی گاڑی آکر رُکی ۔ 
" وہ لڑکیاں اچانک وہاں سے غائب ہوگئی ، شاید وہ سر میرب کی کلاس اٹینڈ کرنے ہی گئیں تھیں۔ "
" ہانیہ شہروز ایسی لڑکی تھی جِسے آج تک کسی لڑکے سے کسی بھی قسم کی کوئی اَٹریکشن محسوس نہیں ہوئی تھی ، یونیورسٹی جانے کا بھی اٌسکا صرف ایک ہی  مقصد تھا ، اپنی ایجوکیشن کمپلیٹ کر کے ایک ڈاکٹر بننا ، جو غریبوں کا مفت علاج کرے ۔" لیکن اُس دن پہلی بار اُس کردار سے نَا جانے کیوں اَٹریکشن سی محسوس ہو رہی تھی ۔ ایک لمحے کے لئے دونوں کی نظروں کا ٹکراؤ ہوا  پھر رخ پھیر کر وہ اپنی منزل کی سمت روانہ ہو گئی ۔۔
 " ہانیہ تم اُس بلیک شرٹ والے لڑکے کو جانتی ہو کیا ؟ "ماریا نے پوچھا 
" نہیں میں نہیں جانتی وہ کون ہے ۔ کیا ہمارا کلاس میٹ ہے وہ ؟ " اُسنے ماریا سے پوچھا کیونکہ وہ ہر نیو آنے والے اسٹوڈنٹ کی خبر رکھتی تھی ۔
" ہاں میرا تو کرش ہے یار ، اِتنا ہنڈسم ہے پھر بھی لڑکیوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا ۔۔ " ماریا اُسکی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی ۔
" اف اللّه ایک تو تم سے کوئی فضول بات کروالے "۔ہانیہ نے  تلملا کر اُسے جواب دیا ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



دوست کوئی لاؤ مقابل میں ہمارے ۔۔،
دشمن تو کوئی قد کے برابر نہیں نکلا!
یار اب تک میرا قد نہیں بڑھا ، " اُتنا کا اُتنا ہی ہے ، آج بھی سب لڑکے مذاق بنا رہے تھے "۔ فرح اپنے دُکھتے دل کا رونا رو رہی تھی ۔
" پھر تم نے اُن لڑکوں کو کچھ کہا کیوں نہیں فرح  ؟ "  دیتی اُنکو پڑاپڑ ، تب اُنکو معلوم ہوتا صرف قد چھوٹا ہے ، چماٹ اب بھی پڑاپڑ لگتا ہے ۔۔
" ماریا  تُو بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے ، ایسا ہی کرنا تھا مجھے اُن شریر لڑکوں کے ساتھ ، پر پتہ ہے میرے ساتھ کیا ہوا ؟ "وہ ڈر رہی تھی کہ اگر ماریا کو پتا چلا کہ وہ اپنا مذاق بنوا کر آئی ہے تو وہ بہت غصّہ ہو گی ۔ ۔
" بتا کیا ہوا ؟ " اور زیادہ باتیں نہ گھمانا سیدھا سیدھا بتانا کہ کیا ہوا؟ ماریا نے اُس کو دھمکایا
میں نے ایمن سے کہا کہ جب میں چھوٹی تھی ، تب میں بہت کیوٹ تھی ،اِتنے میں زین آیا کہنے لگا "  چھوٹے قد والے یہ نہ بولا کریں جب میں چھوٹی تھی بلکہ یہ بولا کریں جب میں بہت زیادہ چھوٹی تھی ۔ "  ۔۔اور ہنس کے میرا مذاق بنایا وہ بھی اس مشعل کے سامنے ۔
تم پریشان نہ ہو فرح اب اُنکو سبق سیکھانا پڑے گا ۔
" ماریا  ایسی آفت کی پڑیا ہے ، جس نے کسی کو سبق سیكهانے کی ٹھان لی پھر تو اُسکا اللّه ہی حافظ ہے ۔"
اے بونے! ہاں تُجھہ سے ہی مخاطب ہوں ۔" تم کیا سوچتے ہوکہ چھوٹے قد والوں کا دل نہیں ہوتا کیا ؟ جو تم جیسے نٹھعلّے لڑکے منہ اُٹھا کے مذاق اُڑانا شروع کر دیتے ہو ۔" دیکھو بونے ! اگر  تم نے اب فرح کا مذاق اڑایا تو  تمہاری خیر نہیں ہے  ۔
ہاں ہاں بہت دیکھے ہیں تیری طرح بڑی بڑی ڈِینگے مارنے والے ۔۔۔اُسنے شاید ماریا کو ہلکے میں لے لیا تھا ، " وہ نہیں جانتا تھا کہ اُسنے"  ماریا راجپوت " سے پَنگا لیا ہے ،جو اُسے قبر تک گھسیٹے گی "۔۔
" بونے  !اِس بار تیرا کچومڑ نہ نکال دیا نہ تو میرا نام بھی " ماریا راجپوت " نہیں ۔وہ دل ہی دل میں مِن مِنا رہی تھی ۔ "
" سر ! اُسنے پروفیسر میرب کو مخاطب کیا ، جن کی وہ فیوریٹ اسٹوڈنٹ تھی اور وہ اُسکی کوئی بات نہیں ٹالتے تھے۔ "
" سر اِس نے میرے نوٹس چوری کئے ہیں اور جب میں نے اِسے کہا کہ یہ نوٹس میرے ہیں ، واپس کرو مجھے ورنہ میں سر سے کہہ دونگی تو کہتا ہے جو کرنا ہے کرلو ، تم جیسے لوگ بہت دیکھیں ہیں ۔" وہ روتے روتے شکایت کر رہی تھی ۔
یہ کیا مذاق ہے زین ؟ واپس کریں اُن کے نوٹس اور آئیندہ میں ایسی کوئی بات نہ سُنو آپ کے بارے میں ۔ 
" یس سر ۔۔۔ "ماریا تُجھے تو اللّه پوچھے گا ۔زین سخت غصّے میں تھا ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عادتیں ڈال کے اپنی توجہ کی ،
یکدم جو بدلتے ہیں ستم کرتے ہیں !
" سنیں مِس ہانیہ شہروز ، آپ کو سر میرب نے کال کیا ہے ، وہ اسٹاف روم میں ویٹ کر رہے ہیں ؟ "
جی ضرور ۔
Sir may i come? 
Yes ? 
" میں نے سوچا ہے کہ آپ لوگوں کا جو اسٹڈی گروپ ہے اُسے میں سیٹ کروں تا کہ جو اسٹوڈنٹس پڑھنے میں وِیک ہیں وہ بھی اچھے مارکس لے سكيں ، تو آپکو اس لئے بلایا گیا ہے کہ آپ مجھے یہ گائیڈ کر سكيں کہ کون سا اسٹوڈنٹ پڑھنے میں وِیک ہے اور کونسا پڑھنے میں اچھا ؟ "وہ ہانیہ سے مخاطب تھے ۔
" سر ویسے تو پڑھنے میں سب ہی اچھے ہیں بس کلاس کی تین گرلز ہیں جو پڑھنے میں ویک ہیں ۔" باقی دو بوائز ابھی دوسرے سیکشن سے آئیں ہیں۔ اُن کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی ۔
" ہاں وہ دونوں لڑکے سیکشن اے کے ہیں ، اُن میں سے ایک ارسل ہے اور دوسرا زین ، پڑھنے میں ماشااللہ دونوں ہی اچھے ہیں ۔"
" جی سر ، وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ زین کون ہے اور ارسل کون ۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سارے رشتے نبھا کر دیکھ لئے میں نے ۔۔،
لیکن ماں باپ جیسا کوئی اپنا نہیں مِلا۔!
" ہانیہ بیٹا یونیورسٹی نہیں جانا ہے کیا آپکو ؟ " شہروز صاحب نے بیٹی کو اُٹھایا ۔
" بابا نہیں ، آج بہت تیز بخار ہے مجھے ، طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے میری ۔"ہانیہ نے شہروز صاحب کو ٹالا 
چار سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ہانیہ یونیورسٹی نہیں جارہی تھی ، ورنہ تو بڑی سے بڑی آفت آجاۓ وہ یونیورسٹی سے چُھٹی کبھی نہیں کرتی تھی ۔
" شہروز ناشتہ لگ گیا ہے ، اپنی صاحبزادی کو بھی ساتھ لے کر  آئے گا ۔ " شگفتہ بیگم نے ناشتے پر بلایا ۔
" شہروز صاحب اب آپکی بیٹی کا آخری مہینہ چل رہا ہے پڑھائی کا ، بس اب آپ شادی کے بارے میں سوچیں ۔۔"
" ہاں ہاں ضرور بیگم ، ہانیہ اگر آپکو کوئی پسند ہے تو آپ  بتا سکتی ہیں مجھے ، میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں ۔۔شہروز صاحب نے بیٹی کو مخاطب کیا ۔"
" بابا فلحال تو ایسا کچھ نہیں ہے ، اور اگر ہوتا بھی تو سب سے پہلے میں آپکو ہی بتاتی ۔"
" ہاں میری بیٹی ، مجھے بھروسہ ہے آپ پر ۔ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


" دوستی کا رشتہ اگر نہ بنا ہوتا تو
انسان کبھی یقین نہ کرتا کہ 
اجنبی لوگ اپنوں سے بھی
پیارے ہوسکتے ہیں "
" ہانیہ ہانیہ کہاں ہو تم ؟ " ماریا کی سانس پُھول رہی تھی کیونکہ وہ دوڑتے ہوۓ آئی تھی ۔
" کیوں کیا ہوگیا ہے ماریا ؟ اتنی ہانپ کیوں رہی ہو تم ؟" 
ارے سٌنو ارسل نے تمہیں چٌنا ہے سب میں سے ۔
" کیا مطلب چٌنا ہے ؟ "وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی ۔
یار دیکھو میں یہاں پڑھنے آتی ہوں نہ کے یہ فضول حرکتیں کرنے ، تو اچھا یہی ہوگا کہ تم اسے جا کر سمجھا دو ، ہاں میں تم سے ہی مخاطب ہوں  ۔۔۔اٌس نے سختی سے اٌسے متوجہ کیا ۔۔
" ہانیہ یار تم غلط کر رہی ہو بہت ، بہت زیادہ غلط ہے یہ ، ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کسی کی فیلنگس کو ہرٹ کریں " ۔۔وہ اٌسے سمجھا رہی تھی ۔
" میں نے جب تمہیں ایک بات سمجھا دی تو تم کیوں نہیں سمجھتی ماریا " ۔۔اس بار اس کے لہجے میں بہت سختی تھی ۔
" اچھا ٹھیک ہے ، جیسا تم کہو ۔ اب ناراض تو مت ہو ، تم جانتی ہو نہ کہ تمہاری کیا اہمیت ہے میری زندگی میں ۔۔ "
" ماریا نہایت ہی سُلجھی ہوئی لڑکی تھی ، جو کبھی کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی ، اُسکی جینے کی صرف دو ہی وجُوہات تھی ، ایک ہانیہ شہروز اور دوسری ، سب کی مدد کرنا اور سب کی تکلیفوں کو دور کرنا ۔۔اس کے ماں باپ کی فوتگی کے بعد وہ اپنے ہُوش و حَواس کھو بیٹھی تھی ، جب اسکی بیسٹ فرینڈ یعنی ہانیہ نے اسے سمبهالا تھا ، وہ  اسکا خیال ایسے رکھتی تھی جیسے ایک ماں اپنی بیٹی کا ، اس لیے اسکی زندگی میں ہانیہ بہت اہمیت کی حامل تھی ۔۔" 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہر ایک فرد سے سنو گے تم داستان ہماری ،
ہم وہ ہیں جو ہر محفل میں دوہراۓ  جاۓ گے!
" وہ تیز تیز بول کر اپنا نکتہ نظر اُن لڑکوں کو سمجهانے کی کوشش کر رہا تھا اور نتیجہ حسبِ مَنشا نہ پا کر وہ غصّے میں آگیا تھا ۔اردگرد کی ساری لڑکیاں خوفزدہ ہو کر چیختے ہوۓ بھاگی تھیں ۔لڑکے ان کے سامنے جمع ہونے لگے تھے ۔اُن میں سے ایک لڑکے نے ہانیہ کا ہاتھ پکڑنے کی جرات کرلی تھی ، یہ دیکھ کر اسکا غصہ دماغ پر چڑھ گیا تھا ۔وہ ایک تھا اور وہ پانچ ۔ "
" میں نے کہا ہانیہ شہروز کا ہاتھ چھوڑ ۔ "وہ غصّے سے پاگل ہو رہا تھا ۔
" اوۓ ہیرو !تو اپنے کام سے کام رکھ ۔میں تو نہیں چھوڑنگا اُس کا ہاتھ ، تُجھے جو کرنا ہے کر لے ۔ "وہ اُس کا غصّہ مزید بڑھا رہا تھا 
" وہ ہانیہ کا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے چھوڑاتا  ہے  اور زور سے اٌسکی پُشت پر مارتا ہے ، اُسکا ایک ہاتھ پڑتے ہی وہ زمین بوس ہو گیا تھا ۔ " اٌس کی طاقت دیکھ کر باقی کے چار لڑکے بھی پیچھے ہٹ گۓ تھے ۔
" تمہیں کیا ضرورت تھی وہاں کھڑے رہنے کی ، وہ تو اچھا ہوا کہ وہاں ارسل ہمدانی تھا اور اٌسنے تمہیں بچا لیا ۔ "
" اگر وہ نہ ہوتا تو کیا ہونا تھا میرے ساتھ ؟ " اسنے ماریا   سے پوچھا ۔
" ناجانے کیوں وہ اٌس کی تعریف کبھی نہیں کرتی تھی ، اس کا دل ڈرتا تھا اٌسکی تعریف سے ، اُسے بھی اُس کے لئے محبت محسوس ہوتی تھی لیکن وہ چاہ کر بھی اظہار نہیں کرتی تھی ۔آخر کیوں تھا ایسا ؟ کیا دو محبت کرنے والے دل ایک ہو پائینگے ؟ یا ہو جاۓ گے اُن کے راستے جُدا جُدا ؟ "
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔............۔۔۔۔۔۔
 
 تیرے حُسن کے کیوں نہ ہوں چرچے جاناں ،
 ہماری محبت کا ہر رنگ تجھ میں سمایا ہے !
" مس ہانیہ کیا آپ مجھ سے ایجوکیشن کے نوٹس شیئر کرینگی ؟ " اگر آپکو کوئی مسلہ نہ ہو تو ۔
" جی جی ضرور ، مجھے بھلا کیوں مسلہ ہو گا  اور مجھے اُن لڑکوں سے بچانے کے لئے شکریہ ۔"
" نہیں نہیں شکریہ والی کیا بات ہے ۔۔"
" کیا آپکو ماریا نے کچھ بتایا تھا مجھ سے ریلیٹڈ ؟ "وہ گهبراتے ہوۓ اس سے پوچھ رہا تھا ۔
" نہیں اُسنے تو مجھے کچھ نہیں بتایا ، کچھ بتانا تھا کیا ؟ "
" نہیں کچھ بھی نہیں ، کلاس کا وقت ہورہا ہے چلیں میں چلتا ہوں ، آپ نہیں آئينگی کیا ؟ "
" ہاں ، مجھے سر نے بلایا ہے پھر میں آؤنگی کلاس اٹینڈ کرنے ۔ "
دیکھ ہانیہ میری محبت ہے ، اُسے دوبارہ تکلیف دینے کی کوشش بھی کی تو بہت برا ہوگا ۔وہ اٌن لڑکوں کو وارننگ دے رہا تھا ۔
کیا کوئی کسی سے اس قدر محبت بھی کر سکتا ہے ۔اتنی  بےپناہ محبت ، وہ سوچ رہی تھی ۔
" مسٹر ارسل ہمدانی کیا تم ہانیہ سے سچی محبت کرتے ہو ؟ " مشعل نے اس سے پوچھا ۔
" ہاں مس مشعل ، لیکن میں آپ کو یہ بتانا ضروری نہیں سمجھتا اور آپکو کچھ طریقہ ہونا چاہیے کہ کسی کی بھی لائف میں اتنی دخل نہیں دیتے ہیں ۔" 
 " وہ غصّہ ور ، رعب دار آواز ، جس کا بات کرنے کا انداز اتنا جادوئی ہے کہ بات کرنے والا بات کرتا ہی جاۓ ۔ بڑی بڑی آنکھوں والا ، ہلکی داڑھی جس پر کوئی بھی لڑکی فِدا ہوجاتی ، کُشادہ پیشانی ، فوجی کٹ بال ، سفید رنگت ، چھوٹے گلابی ہونٹ ، پینٹ شرٹ پہننے والا وہ چوبیس سالہ خوبصورت شکل و صورت کا مالک جو اُسے دیکھے اپنا بنانے کی خواہش کرے۔ " ہاں " ارسل ہمدانی" وہ وہی ہے جسے دیکھ کر لڑکیوں کے قدم وہی رُک جائیں اور مشعل بھی اُن لڑکیوں میں سے ایک تھی ، جو ارسل ہمدانی کی دیوانی تھی ۔ 


 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شنو اے چاند سی لڑکی۔ 
ابھی تم کہہ رہی تھی ناں۔ 
کہ تمھیں مجھ سے 
محبت ہو نہیں سکتی۔
 چلو مانا کہ یہ سچ ہے
مگر اے چاند سی لڑکی۔
مجھے اتنا بتاؤ تم 
کہ جب موسم بدلتے ہیں۔
تو پھر کیوں مضطرب ہو کر 
اکیلے پن سے گھبرا کر 
ہوا کو راز دیتی ہو
توپھر کیوں چونک جاتی ہو 
چلو مانا کہ تمھیں مجھ سے 
محبت ہو نہیں سکتی 
مگر اتنا سمجھ لو تم
جہاں چاہت نہیں ہوتی 
وہاں نفرت کے ہونے کا 
کوئی امکان نہیں ہوتا
مگر دعوی ہے چاہت میں
جہاں نفرت نہیں ہوتی۔
وہاں اکثر یہ دیکھا ہے
گلوں میں رنگ بھرتے ہیں۔
 مجھے آواز دیتی ہو
 تمھارے سامنے کوئی۔
 جب میرا نام لیتا ہے ،
 تم شرما جاتی ہو ،
 اگر کچھ وقت کٹ جائے ،
 سمے کی دھول چھٹ جائے ،
 تو تم کو سمجھ آئے گا ، 
تمہیں مجھ سے محبت ہے ،
تمہیں مجھ سے محبت ہے !
تمہاری پوروں کا لمس اب تک گلاب بن کر مہک رہا ہے ،  مجھے یقین ہے کہ جب بھی میں چاہوں تمہارے بے حد حسین ہاتھوں کو تھامنے کا پر ایک لمحہ اپنے خیالوں کے دائرے سے نکال کے ، مجھے وصال موسم کی خوشبووں میں محیط کر سکتا ہے ۔
" سنیں ! آپ سے مجھے بےحد محبت ہے ، کیا آپ مجھ سے نکاح کرینگی  اور اس بےنام رشتے کو حلال کر کے ایک نام دینا چاہیں گی ۔۔" مس ہانیہ شہروز میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں ۔ اسکی آواز میں بہت نرمی تھی ۔
ام ، ام  ، مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں آپ کو کیا جواب دوں ، اسنے جلدی سے کہا ۔
" دیکھیں ، ایک ہوتا ہے ہاں ، یعنی کہ رضامندی ہے اور  دوسرا ہوتا ہے نہیں ، یعنی کہ میں رضامند نہیں ہوں ، اب یہ آپکو ڈیسائیڈ  کرنا ہے کہ آپکا جواب ہاں ہے یا نہیں ۔
ہاں ۔ ہانیہ شہروز سے ہلکی آواز میں کہا 
" کیا کہا آپ نے ہانیہ شہروز ؟ کیا آپ ہانیہ ہمدانی بننے کے لئے تیار ہیں ؟ " اسنے چھیڑتے ہوئے کہا ۔
میری طرف سے"  ہاں " ہے مسٹر ارسل اور میں مسیز ارسل بننے کے لئے تیار ہوں ۔
اس خواب کے بعد ، وہ نیند سے بیدار ہو گیا تھا ، لیکن اٌس نے سوچ لیا تھا کہ آج تو میں بات کر کے رہوں گا یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اس کی نگاہ ہانیہ پر پڑی تھی ۔
السلام و علیکم !
" کیسی ہیں آپ ؟ "
" الحمدلللہ میں ٹھیک ۔ " آپ سنائیں ؟
جی میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ " will u marry me " . اسنے اچانک سے کہا تھا ۔
" آپ اگر intrested ہیں تو میرے پیرنٹس سے بات کر سکتے ہیں ۔" اسنے لگی لپٹی رکھنے کے بجاۓ ، سیدھی بات کی تھی ۔
میں آپ کا جواب جاننا چاہتا ہوں پھر میں آپ کے پیرنٹس سے بات کرونگا ۔ 
 اوکے میں شادی کرلوں گی لیکن اپنے پیرنٹس کی اجازت سے 
اتنے سالوں کی محبت کا اظہار اس نے آج بھی نہیں کیا تھا ،وہ چاہتی تھی اپنی محبت دل میں رکھے اور ایک مقرر وقت پر اسکا اظہار کرے، کیوں کہ اچھی لڑکیاں شادی سے پہلے محبت کی باتیں نہیں کرتی ہیں ، اسکا ماننا یہ تھا کہ محبت کرنا غلط نہیں ہوتا ، لیکن محبت میں جو کچھ غلط حرکتیں ہوتی ہیں ، اصل میں وہ غلط ہوتا ہے ۔
" سفید رنگت ، ہلکا براؤن كلر جو بالوں کو اور بھی زیادہ خوبصورت بنا رہا تھا ، گھنی پلکیں ،  بادامی آنکھیں ، انابی ہونٹ ، درمیانہ قد اور اٌسکا مسکراتا چہرہ ہی کافی تھا کسی کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ، وہ الگ بات تھی کہ وہ دوسری لڑکیوں سے ذرا مختلف تھی ۔ ہانیہ شہروز اٌس قدر خوبصورت تھی کہ کوئی بھی اٌسکی خوبصورتی کی تاب نہیں لا سکتا تھا ، وہ ایک تھی جو اُسے بھا گئی تھی ، اٌس نے اُس کے دل میں بسیرا کر لیا تھا ، وہ اُس کے دماغ سے نکل ہی نہیں رہی تھی . "


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



مسافر عشق کا ہوں ، میری منزل محبت ہے ،،
تیرے دل میں ٹہر جاؤں اگر تیری اجازت ہو !!
میں چاہتا ہوں آج آپ میرے ساتھ میرے ماں باپ سے ملنے چلیں ، میں نے انہیں آپ کے متعلق سب بتا دیا ہے اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ اس لئے میری آپ سے گزارش ہے آپ ان سے مل لیں ، اور میں کوئی بہانہ نہیں سنونگا ۔اس نے ہانیہ سے ریکویسٹ کی ۔
لیکن ارسل مشکل ہے یہ ،آپ ڈائریکٹ میرے گھر رشتہ لے کر آجایًیں ۔
پلیز پلیز میرے لئے چل لیں ، وہ اس سے بارہا ضد کر رہا تھا ۔
چلیں ٹھیک ہے لیکن صرف آدھا گھنٹے کے لئے ، ورنہ امی پریشان ہو جاینگی ۔
شکریہ ہانیہ ، اس نے اسکا شکر ادا کیا ۔
اوکے میں جب جب تک آتا ہوں ، زین کینٹین میں میرا انتظار کر رہا ہے ۔ وہ اسے بتا رہا تھا ۔
مجھے لگتا ہے ، مجھے ماریا راجپوت سے محبت ہوگئی ہے ، زین نے ارسل کو بتایا ۔
" ہاہاہاہا  کیا واقعی؟ اب یہی ہونا باقی تھا کیا ؟ " وہ زور سے ہنسا 
" ہاں بھئ ، کیوں کیا محبت تمہیں ہی ہو سکتی ہے ؟ "
نہیں نہیں بھائی ، تو برا مت مان ۔
چل یار میں انشااللہ تجھ سے ایک ہفتے بعد ملوں گا ، کچھ ادھورے کام ہیں انہیں پورا کرنا ہے ، پھر آکر تیرے مسئلے پر غور کریں گے ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بیٹی کہاں ہے ؟ تمہیں کچھ معلوم ہے ؟ مسٹر شہروز نے ماریا کو کال پر پوچھا ۔
نہیں انکل شہروز ، مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے ، کیا وہ گھر نہیں پہنچی اب تک ؟ 
نہیں ، میں نے ہر جگہ دیکھ لیا ، جہاں مجھے لگتا تھا ، وہ جا سکتی ہے لیکن وہ کہیں نہیں ملی ۔وہ بہت پریشانی میں تھے ۔
انکل شہروز آپ پریشان مت ہوں ، انشااللہ وہ مل جاۓ گی ۔وہ انہیں دلاسا دے رہی تھی ۔
آئ ہوپ کے جلدی مل جاۓ میری بیٹی ، اسکی ماں کا رو رو کر برا حال ہے ۔
انکل شہروز آپ آنٹی کو کہیں کہ کچھ نہیں ہوگا اسے وہ آجاۓ گی ، یا آپ میری بات کروائیں .
ہاں کہو بیٹی ۔ وہ ماریا سے مخاطب تھیں ۔
آنٹی آپ ٹینشن نہ لیں وہ مل جاۓ گی ۔ 
" بیٹی ، ماں کا دل ہے نہ تو ٹینشن تو ہوگی ، بس دعا کرو میری بیٹی جلد مل جاۓ ، وہ میری اکلوتی بیٹی ہے ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس دنیا میں میرا ۔ "وہ حد سے زیادہ دکھی لگ رہیں تھی ، انکی آواز بھی کچھ روتی ہوئی لگ رہی تھی ۔
جی آنٹی ، آپکو تو معلوم ہے میری کتنی اچھی دوست ہے وہ تو میں کیوں نہیں کرونگی دعا ، مل جاۓ گی وہ ،آپ بےفکر رہیں روۓ نہیں ، اب میں بعد میں بات کرتی ہوں ۔اللّه حافظ 
" ہاں بیٹی ٹھیک ہے ۔ "وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں اور کیوں نہیں روتی ، اس قدر اذیت اٹھا کر انہوں نے اپنی اولاد کو پیدا کیا  اور آٹھ گھنٹے گزر گئے ہیں ، وہ لاپتہ ہے۔ آج اسکی کوئی خبر نہیں مل رہی ہے  ، کوئی بھی ماں یہ دکھ ، یہ تکلیف برداشت نہیں کر سکتی تھی ، انکی نیندیں تک اُڑ گئی تھی ، یہ سوچ کر کہ میری بیٹی کس حال میں ہوگی ، کہاں ہوگی اور کچھ کھایا بھی ہوگا یا بھوکی ہوگی ، یہ ساری سوچیں انہیں اندر ہی اندر مار رہیں تھی ، انکا دم گھٹ رہا تھا ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میری آنکھوں سے گرے ہیں چند لمحے ،
 تیرے لئے ہے پانی ، میرے لئے ہے آنسو !!
جب آنسو نکل آتے ہیں تو ان میں صرف نمک اور پانی
نہیں ہوتا...!! ان میں ماضی کی تکلیفیں، دکھ درد، اپنوں کے ستم، چاہنے والوں کی بے اعتباری، کبھی نہ لوٹ آنے والوں کا غم، وعدوں کی پامالیاں اور نہ جانے کیا کیا احساسات اور جذبات چھیے ہوتے ہیں - - - 
"یار ارسل کہاں تھا تو ایک ہفتے سے ؟ " میری کہانی تو وہیں کی وہیں ہے اب تک ۔اسنے منہ مسورتے ہوۓ کہا ۔
یار بتایا تو تھا کہ کچھ ضروری کام تھے ، وہی نبٹانے تھے ۔
چل جا اور اب جلدی سے میری ادھوری کہانی کو پورا کردے میرے بھائی ۔ 
" سنو ماریا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ؟ کیا تمہارے قیمتی وقت میں سے کچھ منٹ مل سکتے ہیں مجھے ؟ " وہ ماریا سے مخاطب تھی
ہاں کیوں نہیں لیکن اس سے پہلے مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے ؟ وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی ۔
ہاں ہاں پوچھو جو پوچھنا ہے ۔۔ 
ہانیہ کہاں ہے ؟ کیا تم جانتے ہو ؟ اس کے پیرنٹس بھی اسے ڈھونڈھ رہے ہیں لیکن اسکا کچھ پتا نہیں چل رہا ہے ، انکا کہنا یہی ہے کہ وہ لاسٹ ٹائم یونیورسٹی آئی تھی ، اس کے بعد سے کچھ پتا نہیں چل رہا ، مجھے تو بہت ٹینشن ہو رہی ہے ، اگر تمہیں ذرا بھی اندازہ ہے تو بتاؤ وہ کہاں ہے ، cctv photage بھی چیک کیا لیکن وہ کس کے ساتھ گئی ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے بہت دھندلا نظر آرہا ہے ۔ اسنے اپنی پریشانی کا اظہار کیا اور رونے لگی ۔
کیا واقعی ؟ وہ کسی کے ساتھ چلی گئی ؟ لیکن کس کے ؟ مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ مجھ سے محبت کا دعوی کر کے وہ کسی اور کہ ساتھ کیسے جا سکتی ہے؟ وہ اس سے حیرانی سے سب کچھ کہہ رہا تھا ۔
ایسی نہیں ہے وہ ارسل ، آئی بات سمجھ ، وہ بہت اچھی لڑکی ہے ، پاک دامن ہے وہ ، اس پر یا اس کے کردار پر انگلی اٹھانے والے تم کوئی نہیں ہوتے ہو اور تم تو اس سے محبت کرتے تھے نہ تو یہ فضول بکواس کی کیسے تم نے ، وہ میرے لئے میری زندگی ہے ، میرا سب کچھ ہے وہ ، آیندہ ایسی بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔ وہ بیحد غصّے میں میں کہہ رہی تھی ۔
ارے یار ماریا ،میں نے اس کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی ، بس میں تمہاری بات سن کر ہی کہہ رہا تھا کہ وہ کہاں ، کس کے ساتھ چلی گئی اور جہاں تک محبت کی بات ہے ، وہ اب بھی باقی ہے ، میں آج بھی ، ابھی بھی اس سے بےتحاشا محبت کرتا ہوں اور کرتا رہونگا ۔۔وہ اس سے کہتا جا رہا تھا ۔۔
" بس کرو اب ، میں جذباتی ہو گئی تھی ، تبھی تمہیں اتنا سنا دیا ، سوری ارسل ! خیر تم بتاؤ تمہیں کیا کہنا تھا ۔ " 
نہیں مجھے اندازہ ہے کہ تم بہت پریشان ہو ویسے بھی تم اس کو اپنی بہن سمجھتی ہو اور مجھے جو کہنا تھا ابھی وہ وقت نہیں کہ میں بتاؤں ، ویسے بھی تم ابھی ڈسٹرب ہو ۔
یس ، چلو میں چلتی ہوں گھر اب کل ملاقات ہوگی ۔
اوکے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم وقت دیکھ کر یار نہیں بدلتے ،
یار کے کہنے پر وقت بدل  دیتے ہیں !
 " ارسل تم کل کچھ کہنا چاھتے تھے ؟ "
میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے ۔
" کون  ؟ کون  محبت کرتا ہے ؟ "
" وہ ، وہ زین نیازی ۔ " وہ هكلا رہا تھا ۔ "
" کیا یہ سب کچھ اسنے خود تم سے کہا ؟ "
ہاں ، تو تمہیں کیا لگ رہا ہے ، میں کہانیاں بنا رہا ہوں ، حد ہے یار ۔ اب یہ بتاؤ کیا جواب دینا ہے ؟ زین تمہارے جواب کا منتظر ہے ۔
جاؤ کہہ دو " ماریا راجپوت " کے اتنے بھی برے دن نہیں آۓ ہیں ابھی جو وہ "زین نیازی " کو پسند کرے ۔وہ منہ مسورے وہاں سے چلی جاتی ہے ۔
حد ہے اس کے تو گهمنڈ کی ، بہت گهمنڈی ہے بلکل ہانیہ کی طرح ۔۔۔وہ سوچ رہا تھا ۔
یار اب جلدی بتا ، کیا جواب دیا ماریا نے ؟ وہ بہت بےصبر ہو رہا تھا ۔
ارے میرے بھائی اسنے بڑی عزت سے کہا ہے کہ "  اس کے ابھی اتنے بھی برے دن نہیں آۓ ہیں جو وہ زین نیازی کو پسند کرے " 
بھائی یار ایسا نہیں ہوتا ہے ، تم نے مجھ سے بولا تھا ، تم کچھ کروگے ، اب تمہیں کچھ کرنا ہوگا ۔
اچھا ابھی معاف کر بھائی ، لیکن میرا وعدہ ہے کہ میں پوری کوشش کرونگا ۔
چل ٹھیک ہے  اتنا تو بھروسہ ہے مجھے تجھ پر ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Next part will upload inshaAllah as soon

   11
9 Comments

Maria akram khan

09-Sep-2022 06:32 PM

Zabardast larki💜💜

Reply

Asha Manhas

09-Sep-2022 02:30 PM

ماشاءاللہ❤️

Reply

Simran Bhagat

01-Sep-2022 10:23 AM

ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت خوبصورت❤️❤️

Reply